Thursday, June 13, 2013

چڑیا

چڑیا ایک عام پرندہ
دنیا کا شاید ہی کوئی حصہ ہو جہاں چوں چوں کرتی چڑیا موجود  نہ  ہو۔ فرق صرف جسم یا پروں کے رنگوں کا ہے۔ اگر ہم بچوں کی کہانیاں پڑھیں تو شاید سب سے زیادہ کہانیا ںچڑیا پر ہی لکھی گئی ہیں۔اگرچہ یہ پالتو پرندہ نہیں لیکن ہر گھر  کی چھت پر یا ٹیرس پر  دکھائی دیتا ہے۔
عام طور پر یہ چڑیا، چھوٹے جسامت کے ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ گندمی-بھورا ہوتاہے۔ اس کی دم چھوٹی اور چوڑی ہوتی ہے۔ اس کی چونچ کافی مضبوط ہوتی ہے۔
چڑیا عام طور پر دانہ اور اناج وغیرہ کھاتی ہے لیکن  چھوٹے چھوٹے کیڑے اور پھول پتیاں بھی شوق سے کھاتی ہے۔
چڑیا کا وزن  کچھ گرام ہی ہوتا ہے تاہم پاکستان کے کچھ علاقوں ایسی چڑیا بھی پائی جاتی ہے جس کا وزن پچاس گرام تک ہوتا ہے۔ چڑیا عام طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت نہیں کرتی لیکن برفانی علاقوں میں رہنے والی چڑیا موسم کی سختی کی وجہ سے  موسم ِ سرما میں پہاڑوں سے نیچے آجاتی ہے اور موسم ِ گرما میں واپس اپنے ملک کا رخ کر لیتی ہیں۔

چڑیا درختوں ، خالی جگہوں ، گھروں کے روشندانوں اور جھاڑیوں میں گھونسلا بناتی ہے ۔ اس کا سب سے بڑا دشمن کوا ، باز،اور بلی ہے ۔لیکن جب بڑا پرندہ اس پر حملہ کرتا ہے تو یہ چھوٹی سی جان  سخت مقابلہ کرتی ہے۔  پاکستان کے دیہات اور چھوٹے شہروں میں  بہت سے لوگ اس معصوم سے پرندے کو پکڑ جال لگا کر پکڑتے ہیں اور پھر بھون کر کھا جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے گجر نوالہ مشہور ہے۔ ا س وجہ سے اس کی کچھ قسموں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

عقاب


عقاب ایک ایسا پرندہ ہے جس کی کئی قسمیں ہیں یا یوں کہئے کہ اسے کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ باز ، شاہین اور عقاب۔ اس پرندے کو اپنی کچھ خوبیوں کی وجہ سے پرندوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔  ان خوبی میں سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ یہ آسمان کی بلندی سے زمین پر باریک اور چھوٹے سے چھوٹے  شکار کو آسانی سے دیکھ لیتا ہے گویا کہ اس کی نظر تمام پرندوں میں سب سے تیز ہے۔ اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ اونچی یعنی بلند جگہوں پر گھر بناتا ہے تاکہ وہ اور اُس کے  بچے محفوظ رہیں۔
عقاب کا وزن چھ کلو سے  آدھ کلو تک ہو سکتا ہے۔  عام طور پر عقاب  اپنے بھاری جسم، طاقت ور پروں،  نوکیلے پنجوں اور نوکیلی چونچ کی وجہ سے بھی باقی پرندوں سے مختلف ہے۔ اس کی چونچ ۳۹ انچ تک لمبی ہو سکتی ہے۔ اپنی خاص بناوٹ کی وجہ سے یہ اپنے شکار کو چند سیکنڈ میں ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔
کھانے میں اسے گوشت بہت پسند ہے چاہے کبوتر کا ہو یا خرگوش کا۔ اپنے جسم کے مطابق عقاب چڑیا ،کبوتراور خرگوش تک کا شکار کرتا ہے  ۔ اسی طرح باقی پرندے بھی اگر اس کی نظر میں آ جائیں تو  اس سے بچ نہیں سکتے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عقاب سانپ کو بھی پکڑ لیتا ہے اور اُڑتے ہوئے کھا لیتا ہے۔
دنیا میں اس وقت عقاب کی  ساٹھ سے زیادہ قسمیں پائی جاتی ہیں۔ جو دنیا کے تقریبا تمام حصوں میں موجود ہیں۔
آج کے اس دور میں عقاب کی نسلیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں ۔ اسے سب سے بڑا خطرہ موسم سے ہے  اور دوسرا انسان سے جو اسے اپنا شکار بناتے ہیں۔ لوگ عقاب کو پالتے ہیں اور پرندوں کا شکار کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔ شکاری عقاب پرندے کا شکار کرتا ہے  اور اسے بغیر کھائے اپنے مالک کےحوالے کر دیتا ہے۔
عقاب ہمیشہ سے ہی بہادری کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افواج میں عقاب کا نشان فخر اور بہادری کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ پاکستان کی  ائیر فورس یعنی فضائیہ میں بھی عقاب کا نشان استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان  کے قومی شاعر علامہ اقبال نے اس پرندوں کا نام اپنی شاعری میں استعمال کیاہے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ جو خوبیاں شاہین میں ہیں وہ  تمام مسلمانوں میں پیدا ہو جائیں۔
عقاب ایک ایسا پرندہ ہے جو اپنے بچوں کو پیدا ہونے کے بعد آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی حفاظت نہیں کرتے۔

طوطا یاک ذہین پرندہ

طوطا ایک قدیم پرندہ
طوطے  ایک عام اور  ہر جگہ پایا جانے والا پرندہ ہے ۔   اسے گھروں میں پالنے کارواج بھی ہر ملک میں موجود ہے یہاں تک کہ وحشی قبائل بھی طوطا پالتے تھے۔ کہا جا تا ہے کہ کولمبس کے پاس بھی ایک طوطا تھ اجو اسے خشکی کا راستہ بتاتا تھا۔
طوطے کی  ۳۷۰ سے  زیادہ اقسام دنیا میں موجود ہیں ۔  ہمارے ہاںسب سے زیادہ عام سبز رنگ کا طوطا ہے  جس کی گردن پر لال   دائرہ سا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کے کیکٹو (Cacktoo)، کی آ (Kea)، لوری (Lory)، لوبرڈ (Lovebird) اور میکا (Macaw) بھی شامل ہیں۔
طوطا اپنی لال چونچ سے  بیج یعنی اناج کھاتا ہے۔ لیکن  پھل بھی شوق سے کھاتا ہے۔ تاہم امرود ا سکی پسندیدہ خوراک ہے۔  یہ اپنے پیروں کے پنجوں میں کھانے کی چیز پکڑ کر  چونچ سے کھاتا ہے۔  نیوزی لینڈ کا سبز رنگ کا طوطا پھل اور پودوں کی جڑوں کو کھاتا ہے۔
آسٹریلوی ریاست نیوکوئنزلینڈ اور نیوگنی کے پام کو کٹو (Palm-Cackato) مہارت سے ناریل توڑ لیتے اور کھول کر کھاتے ہیں۔

اس وقت طوطوں کی ۷۰ ؍ سے زیادہ اقسام  کو خطرات لاحق ہیں ۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں ایک موسم دوسرا انسان ۔ انسان اپنی فصل بچانے کے لئیے سپرے کرتا ہے جس کی وجہ سے طوطے بیماریوں کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔  اسی طرح جانور بھی طوطے کا شکار کرتے ہیں۔